جمال خود رخِ بے پردہ کا نقاب ہوا
نئی ادا سے نئی وضع کا حجاب ہوا
ملا ازل میں مجھے میری زندگی کے عوض
وہ ایک لمحۂ ہستی کہ صرف خواب ہوا
وہ جلوہ مفت نظر تھا، نظر کو کیا کہئے
الٹ گئی مِری امید و بیم کی دنیا
یہ کیا نظامِ تمنا میں انقلاب ہوا
گناہگار سہی دل مگر قصور معاف
ظہورِ شوق بہ اندازۂ حجاب ہوا
قضا کو مژدۂ فرصت کہ فانؔئ مہجور
شہیدِ کشمکشِ صبر و اضطراب ہوا
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment