Saturday 30 April 2016

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی
پھر یہ بارش مِری تنہائی چرانے آئی
زندگی باپ کی مانند سجا دیتی ہے
رحمدل ماں کی طرح موت بچانے آئی
آج کل پھر دلِ برباد کی باتیں ہیں وہی
ہم تو سمجھے تھے کہ کچھ عقل ٹھکانے آئی
دل میں آہٹ سی ہوئی روح میں دستک گونجی
کس کی خوشبو یہ مجھے میرے سرہانے آئی
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
تیری مانند تِری یاد بھی ظالم نکلی
جب بھی آئی ہے مِرا دل ہی دکھانے آئی

کیف بھوپالی

No comments:

Post a Comment