Thursday 21 April 2016

عشق و وفا کی راہ گزر میں زیرِ قدم جب کانٹے آئے

عشق و وفا کی راہگزر میں زیرِ قدم جب کانٹے آئے
کتنے ہی اربابِ عزیمت ساتھ مِرا دے کر پچھتائے
راہِ وفا کا رہرو ہوں میں، کانٹوں پر چلنا ہے مجھ کو
کرب و بلا سے ڈرنے والا ہرگز میرے ساتھ نہ آئے
خوب ہے اے اربابِ محبت! ذکرِ بیانِ عظمتِ رفتہ
لیکن غازی وہ ٹھہرے گا جو ماضی کو حال بنائے
نغمہ و لَے کے متوالوں کو صاحبِ وجد و حال تو دیکھا
لیکن ان ”خاصانِ خدا“ سے رزم کے میداں خالی پائے
فضلِ خدا سے رشتہ توڑے، شرکِ جلی سے ناتا جوڑے
دیر سے بیٹھا ہے اک صوفی قبرِِ ولی پر آس لگائے
چھوڑ گئی تثلیث کو پیچھے تیز قدم توحید ہماری
ہم نے مٹی کے ڈھیروں پر ماتھے ٹیکے، پھول چڑھائے

عامر عثمانی

No comments:

Post a Comment