Friday 29 April 2016

راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا

راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا
وقت دریا ہے بہر طور گزر جائے گا
ذہن میں اتنی بھی تشکیک نہ رکھی جائے
عشق پانی تو نہیں ہے کہ اتر جائے گا
دوستو! بھائیو! نیکی کے لیے کچھ کیجو
خیر آئے گی تو اس شہر سے شر جائے گا
سدا جینا ہے تو دل کے ابد آباد میں آ
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے ، گزر جائے گا
دل ہے یہ، دل بھی ہمارا ہے، سو وقت آیا تو
اس نے جو کچھ بھی کہا ہے وہی کر جائے گا
دل تو ضدی ہے اسے بھولنے دیجے رحمانؔ
منع کیجئے تو وہیں بارِ دِگر جائے گا

رحمان حفیظ 

No comments:

Post a Comment