راستہ اس کا جو روکے گا وہ مر جائے گا
وقت دریا ہے بہر طور گزر جائے گا
ذہن میں اتنی بھی تشکیک نہ رکھی جائے
عشق پانی تو نہیں ہے کہ اتر جائے گا
دوستو! بھائیو! نیکی کے لیے کچھ کیجو
سدا جینا ہے تو دل کے ابد آباد میں آ
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے ، گزر جائے گا
دل ہے یہ، دل بھی ہمارا ہے، سو وقت آیا تو
اس نے جو کچھ بھی کہا ہے وہی کر جائے گا
دل تو ضدی ہے اسے بھولنے دیجے رحمانؔ
منع کیجئے تو وہیں بارِ دِگر جائے گا
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment