ہم بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ مِری جان تم بھی ہو
ہم بھی ہیں ایک اجڑے ہوئے شہر کی طرح
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ ویران تم بھی ہو
درپیش ہے ہمیں بھی کڑی دھوپ کا سفر
ہم بھی خزاں کی شام کا آنگن ہیں، بے چراغ
بیلیں ہیں جس کی زرد، وہ دالان تم بھی ہو
جیسے کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
مل جائیں ہم تو کیسا سہانا سفر کٹے
گھائل ہیں ہم بھی، سوختہ سامان تم بھی ہو
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment