وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں تِرے شہر میں
تُو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں ترے شہر میں
مِری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تُو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں مِری خواہشیں ترے شہر میں
سبھی ہاتھ مجھ پہ اٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے
مِری سادگی کے لباس پر پڑیں سلوٹیں ترے شہر میں
وہ جو خستہ حال غریب تھے کہیں بستیوں میں مقیم تھے
انہیں کیا ہُوا کہ وہ سہہ گئے سبھی تہمتیں ترے شہر میں
یہاں لوگ بکتے ہیں دوستو! یہاں تاجروں کی کمی نہیں
ہر شخص کی ہیں لگی ہوئیں کئی قیمتیں ترے شہر میں
تُو بھی یادِ ماضی میں ہے مگر کئی خواب اور بھی تھے عقیل
پھر یہ ہوا کہ دفن ہوئیں سبھی چاہتیں ترے شہر میں
عقیل شاہ
No comments:
Post a Comment