Wednesday 27 April 2016

وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں ترے شہر میں

وہی بے وجہ سی اداسیاں کبھی وحشتیں تِرے شہر میں
تُو گیا تو مجھ سے بچھڑ گئیں سبھی رونقیں تِرے شہر میں
مِری بے بسی کی کتاب کا کوئی ورق تُو نے پڑھا نہیں
تجھے کیا خبر کہاں مر گئیں مِری خواہشیں تِرے شہر میں
سبھی ہاتھ مجھ پہ اٹھے یہاں سبھی لفظ مجھ پہ کسے گئے
مِری سادگی کے لباس پر پڑی سلوٹیں تِرے شہر میں
وہ جو خستہ حال غریب تھے کہیں بستیوں میں مقیم تھے
انہیں کیا ہُوا کہ وہ سہہ گئے سبھی تہمتیں تِرے شہر میں
یہاں لوگ بکتے ہیں دوستو! یہاں تاجروں کی کمی نہیں
ہر شخص کی ہیں لگی ہوئیں کئی قیمتیں تِرے شہر میں
اس سرزمیںِ فریب پہ کوئی انبیاء نہ امام تھا
تبھی آ کے گزریں قیامتیں پڑیں آفتیں تِرے شہر میں
تُو بھی یادِ ماضی میں ہے مگر کئی خواب اور بھی تھے عقیلؔ 
پھر یہ ہوا کہ دفن ہوئیں سبھی چاہتیں تِرے شہر میں 

سید عقیل شاہ

No comments:

Post a Comment