Wednesday 27 April 2016

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھُول ہے
درد کی خامشی کا سُخن پھُول ہے
اُڑتا پھرتا ہے پھُلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھُول ہے
اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھُول ہے
تختۂ ریگ پر کوئی دیکھے اسے
سانپ کے زہر میں رس ہے، پھَن پھُول ہے
میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دمن
میرے گیتوں کا دیوانہ پن ُہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment