Thursday 21 April 2016

خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اٹھتی

خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اُٹھتی 
عزیزو سرپہ اب دستار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
کسی کو نذر کر دینی تھی جاں کی اشرفی اب تک 
مگر یہ اشرفی دربار تک ہم سے نہیں اٹھتی
ہماری جان پھر بخشی گئی اے وائے محرومی 
کہ گردن نیزۂ دلدار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
اُدھر اعلان ہوتا ہے کہ موسم فائدے کا ہے 
یہاں لنگر تو کیا پتوار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
کوئی ہے جو بچھا دے دھوپ لے جا کر کنارے پر 
اٹھا تو لائے ہیں اُس پار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
کبھی دامن جھٹک دیتا ہے ہم کو دیکھتے ہی تُو 
کبھی جھولی تِرے دینار تک ہم سے نہیں اٹھتی   
مظفرؔ نے کہا تھا جاں لبوں پر تشنہ لب کی ہے 
کہا بوتل لبِ بیمار تک ہم سے نہیں اٹھتی

مظفر حنفی 

No comments:

Post a Comment