Wednesday 20 April 2016

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کئے

درد بڑھتا گیا جتنے درماں کئے،۔ پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پئے
اور جب دامنِ ضبط چھٹنے لگا ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لئے
عشق بڑھتا رہا سُوئے دار و رسن،۔ زخم کھاتا ہوا، مسکراتا ہوا
راستہ روکتے روکتے تھک گئے زندگی کے بدلتے ہوئے زاویے
گم ہوئ جب اندھیروں میں راہِ وفا، ہم نے شمعِ جنوں سے اجالا کیا
جب نہ پائی کوئی شکلِ بخیہ گری ہم نے کانٹوں سے زخموں کے منہ سی لئے
اس کے وعدوں سے اتنا تو ثابت ہوا،۔ اس کو تھوڑا سا پاسِ تعلق تو ہے
یہ الگ بات ہے وہ ہے وعدہ شکن یہ بھی کچھ کم نہیں اس نے وعدے کئے
جب حجابوں میں پنہاں تھا حسنِ بتاں، بت پرستی کا بھی اک معیار تھا
اب تو ہر موڑ پر بت ہی بت جلوہ گر، ان بتوں کو کہاں تک خدا مانئے
جس نے لُوٹا تھا اس کو سلامی ملی،۔ ہم لُٹے ہم کو ملزم بتایا گیا
مست آنکھوں پہ الزام آیا نہیں،۔ ہم پہ لگتی رہیں تہمتیں بِن پئے

عامر عثمانی

No comments:

Post a Comment