Tuesday, 19 April 2016

ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے، اماں ہاں
ذرہ ذرہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے، اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدمؑ و ابلیس
جو بھی خود شکار ہے، اماں ہاں
وہ جو ہے جو 'کہیں' نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے، اماں ہاں
اپنی بے روزگارئ جاوید
اک عجب روزگار ہے، اماں ہاں
شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے، اماں ہاں
کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر، رہگزار ہے، اماں ہاں
بھولے بھولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے، اماں ہاں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment