Wednesday, 20 April 2016

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے

سیر دنیا کی، نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے

عمر انہی جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے

روح جب قالبِ خاکی سے جدا ہوتی ہے

کس کو معلوم، کہاں جاتی ہے، کیا ہوتی ہے

فکرِ دنیا سے سوا ہو جسے عقبیٰ کا خیال

وہ طبیعت ہی زمانے سے جدا ہوتی ہے

دل پر غم ابھی بن جائے دوائے تسکین

وہ نظر ڈال جو مانوسِ وفا ہوتی ہے

صادق القول کی پہچان یہی ہے نازؔ

دل میں ڈر ہوتا ہے آنکھوں میں حیا ہوتی ہے


ناز دہلوی 

شیر سنگھ

No comments:

Post a Comment