Tuesday 19 April 2016

یہاں تو کوئی منچلا ہی نہیں

یہاں تو کوئی من چلا ہی نہیں
کہ جیسے یہ شہرِ بلا ہی نہیں
تِرے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ
کوئی اب تیرا مبتلا ہی نہیں
ہوئی اس گلی میں فضیحت بہت
مگر میں وہاں سے ٹلا ہی نہیں
نکل چل کبھی آپ سے جانِ جاں
تِرے دل میں تو ولولہ ہی نہیں
دمِ آخر جو بچھڑے تو، بس
پتا بھی کسی کا چلا ہی نہیں
قیامت تھی اس کے شکم کی شکن
کوئی بس مِرا پھر چلا ہی نہیں
اسے خون سے اپنے سینچا مگر
تمنا کا پودا پھلا ہی نہیں
کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بھلا
ادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیں
اک انبوہِ خونیں دلاں ہے، مگر
کسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں

 جون ایلیا

No comments:

Post a Comment