ہے عجب حال یہ زمانے کا
یاد بھی طور ہے بھلانے کا
پسند آیا ہمیں بہت پیشہ
خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا
کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی
آسمانِ خموشئ جاوید
میں بھی اب لب نہیں ہلانے کا
جان! کیا اب تِرا پیالۂ ناف
نشہ مجھ کو نہیں پِلانے کا
شوق ہے اس دل درندہ کو
آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا
اتنا نادم ہوا ہوں خود سے کہ میں
اب نہیں خود کو آزمانے کا
کیا کہوں جان کو بچانے میں
جونؔ خطرہ ہے جان جانے کا
یہ جہاں جونؔ اک جہنم ہے
یاں خدا بھی نہیں ہے آنے کا
زندگی ایک فن ہے لمحوں کا
اپنے انداز سے گنوانے کا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment