میں سنبھلتا ہوں، مِرا یار مجھے توڑتا ہے
ہاں، وہی لہجۂ بے زار مجھے توڑتا ہے
شام ڈھلتے ہی سجاتا ہوں نگر خوابوں کا
ہر نئی صبح کا اخبار مجھے توڑتا ہے
یہ زمانہ تو مجھے توڑ نہیں سکتا، مگر
کیوں سناتا ہے لرزتی ہوئی آواز میں گیت
خود بھی تھک جاتا ہے، بیکار مجھے توڑتا ہے
سوچ میں گم ہے طلسمِ غمِ دوراں کا عدو
کب تلک میرا سزاوار مجھے توڑتا ہے
شوقِ تعمیر میں وہ چاک پہ رکھتا ہے مجھے
زعمِ تسخیر میں ہر بار مجھے توڑتا ہے
آنکھ میں تاب و طلب بر سرِ پیکار ہوئیں
یہ تماشا سرِ بازار مجھے توڑتا ہے
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment