Wednesday, 20 April 2016

مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا

مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
ساتھ میرے مجھے کیا خبر دوسرا کون تھا
تا بہ منزل یہ بکھری ہوئی گردِ پا کس کی ہے
اے برابر قدم دوستو! وہ جدا کون تھا
جانے کس خطرے نے بخش دی سب کو ہمسائیگی
ورنہ اک دوسرے سے یہاں آشنا کون تھا
پہلے کس کی نظر میں خزانے تھے اس پار کے
مثل میرے حدوں سے ادھر دیکھتا کون تھا
کون تھا موسمِ صاف بھی جس کو آیا نہ راس
کچھ تو ہم سے کہو وہ ہلاک ہوا کون تھا
کون تھا میرے پر تولنے پر نظر جس کی تھی
جس نے سر پر مِرے آسماں رکھ دیا کون تھا
کس کی بھیگی صدا جھانکتی تھی مِری خاک سے
میں تھا اپنا کھنڈر، اس میں میرے سوا کون تھا
کون تھا قائل قہر ہونا تھا جس کو ابھی
ٹوٹ کر جس پہ برسی بھیانک گھٹا کون تھا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment