Wednesday, 20 April 2016

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بیکرانی کا
ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گُم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا
میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
یہ شام اور سمندر اداس پانی کا
پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے
لپک اٹھا کوئی احساس رائیگانی کا
میں ڈر رہا ہوں ہوا میں کہیں بکھر ہی جائے
یہ پھول پھول سا لمحہ تِری نشانی کا
وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مِرے لیے دفتر کھُلا معانی کا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment