کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بیکرانی کا
ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گُم تھیں
بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا
میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جاؤں
پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے
لپک اٹھا کوئی احساس رائیگانی کا
میں ڈر رہا ہوں ہوا میں کہیں بکھر ہی جائے
یہ پھول پھول سا لمحہ تِری نشانی کا
وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مِرے لیے دفتر کھُلا معانی کا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment