اپنی تردید کا صدمہ ہے، نہ اثبات کا دُکھ
جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دکھ
اب کوئی اور تمنا ہے عذابِ دل و جاں
اب کسی حرف میں تُو ہے نہ تِری ذات کا دکھ
میز پر چائے کے دو بھاپ اڑاتے ہوئے کپ
مضمحل جسم سے ناراض سرکتی ہوئی شال
کیوں چھپانے سے چھپایا نہ گیا رات کا دکھ
اب مِرے دل میں نہیں تیرے بچھڑنے کی کسک
اَب کے بے گانہ روی میں ہے مناجات کا دکھ
خشک جنگل سے کسی دن تو دھواں اٹھتا ہے
اور جہالت بھی اٹھاتی ہے فسادات کا دکھ
اتنی چپ چاپ نہ رہ موجِ فراتِ ماضی
تُو نے دیکھا ہے بِلکتے ہوئے سادات کا دکھ
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment