Wednesday 20 April 2016

کبھی رستہ نہیں ملتا کبھی محور نہیں ملتا

کبھی رستہ نہیں ملتا،۔ کبھی محور نہیں ملتا
زمیں پاؤں سے سرکی ہے، فلک سر پر نہیں ملتا
جو محروم بصیرت ہو، وہ محروم بصارت ہے
کبھی آنکھیں نہیں کھلتیں، کبھی منظر نہیں ملتا
تو ملبوسِ نظارہ ہے تو میں نظروں کا جوہر ہوں
تجھے آنکھوں کی محرومی، مجھے پیکر نہیں ملتا
ہزاروں خواب ٹوٹے ہیں، مگر ایسی نفاست سے
کبھی بھی کوئی ریزہ میرے بستر پر نہیں ملتا
عجب سنسان اور ویران راہوں میں بھٹکتا ہوں
کوئی رہبر تو کیا ملتا، کوئی رہ پر نہیں ملتا
ہتھیلی پر لکھی ہوتی ہے قسمت پھر بھی دنیا میں
جو قسمت میں لکھا ہو وہ ہتھیلی پر نہیں ملتا

رحمان حفیظ 

No comments:

Post a Comment