یوں دل میں تِری یاد اتر آتی ہے جیسے
پردیس میں غمناک خبر آتی ہے جیسے
آتی ہے تِرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے
ویران درختوں پہ سحر آتی ہے جیسے
لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا
خود آپ ہوا روز اٹھاتی ہے دعائیں
اور آپ کہیں دفن بھی کر آتی ہے جیسے
اک قافلۂ ہجر گزرتا ہے نظر سے
اور روح تلک گرد سفر آتی ہے جیسے
جلتا ہے کوئی شہر کبھی دامنِ دل میں
سانسوں میں کبھی راکھ اتر آتی ہے جیسے
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment