Monday 18 April 2016

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں، وہی کچھ ہوں، جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا 
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں اتا
زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
بہت کمزوریاں ہیں مجھ میں اک یہ بھی ہے کمزوری
ضرورت میں بھی مجھ کو ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
پرندہ جانبِ دانہ، ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
یہ رخشِ وقت ہے اس پر چلے ہو تو ذرا سن لو
اسے جانا تو آتا ہے،۔۔ پلٹ آنا نہیں آتا
ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا​

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment