آگے حریمِ غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہُوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامنِ چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا
رنگِ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم
کیا بوجھ تھا جس کو اٹھاۓ ہوۓ تھے لوگ
مڑ کر کسی کو کوئی دیکھتا نہ تھا
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئینے
دل اس کو ڈھونڈتا تھا جسے جانتا نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار خدا جانے کیوں ہوۓ
اپنے سوا ہمیں تو کسی سے گِلہ نہ تھا
ہر اک قدم اٹھا تھا نئے موسموں کے ساتھ
وہ جو صنم تراش تھا، بت پوجتا نہ تھا
جس در سے دل کو ذوقِ عبادت عطا ہُوا
اس آستانِ شوق پہ سجدہ روا نہ تھا
آندھی میں برگِ گُل کی زباں سے اداؔ ہوا
وہ راز جو اب تک کسی سے کہا نہ تھا
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment