Monday, 18 April 2016

غم عشرت سے ترساں عشرت غم لے کے آئے ہیں

غمِ عشرت سے ترساں، عشرتِ غم لے کے آئے ہیں
گدایانِ تہی کاسہ، دو عالم لے کے آئے ہیں
نگاہِ کم نگہ، تفسیرِ رنگ و بو و نغمہ تھی
بڑے تحفے کسی کی بزم سے ہم لے کے آئے ہیں
یہی دل ہے کنویں جھنکوا دیے جس نے زمانے کو
اسی ظالم کی تائیدِ مکرم لے کے آئے ہیں
وہ اک لمحہ جو ہونٹوں پر تبسم بن کے آتا ہے
اسی لمحے کی خاطر دیدۂ نم لے کے آئے ہیں
اسی در پر ستارے تھے، شگوفے تھے، بہاریں تھیں
بڑا ہی ظرف تھا ان کا، جو شبنم لے کے آئے ہیں
دلِ خورشید تاباں تک حصارِ آتش و خوں ہے
مگر انسان ان کرنوں کو پیہم لے کے آئے ہیں
ہمیں تو برہمئ نکہتِ گُل بھی قیامت ہے
قیامت ہے کہ خود تقدیرِ برہم لے کے آئے ہیں
بظاہر چاک داماں، بے سروساماں، شکستہ دل
مزاجوں میں اداؔ کیفیتِ جَم لے کے آئے ہیں

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment