صبر آیا نہ تاب آوے ہے
نہ دعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
دشتِ ہجراں سے دشتِ ہجراں تک
دل کو سارا نصاب آوے ہے
میں اندھیروں کو اوڑھ بهی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
اس کو اذنِ سخن نہیں ملتا
جس کو طرزِ خطاب آوے ہے
دل انہی راستوں سے گزرے گا
جن پر نسدن٭ عذاب آوے ہے
اس کے ہوتے بهی دل دکها ہے بہت
اس سے کہتے حجاب آوے ہے
ادا جعفری
نہ دعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
دشتِ ہجراں سے دشتِ ہجراں تک
دل کو سارا نصاب آوے ہے
میں اندھیروں کو اوڑھ بهی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
اس کو اذنِ سخن نہیں ملتا
جس کو طرزِ خطاب آوے ہے
دل انہی راستوں سے گزرے گا
جن پر نسدن٭ عذاب آوے ہے
اس کے ہوتے بهی دل دکها ہے بہت
اس سے کہتے حجاب آوے ہے
ادا جعفری
نِسدِن٭ بمعنی رات دن، شب و روز، ہر وقت، ہر دن، روزانہ
No comments:
Post a Comment