Monday, 18 April 2016

صبر آیا نہ تاب آوے ہے

صبر آیا نہ تاب آوے ہے
نہ دعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
دشتِ ہجراں سے دشتِ ہجراں تک
دل کو سارا نصاب آوے ہے
میں اندھیروں کو اوڑھ بهی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
اس کو اذنِ سخن نہیں ملتا
جس کو طرزِ خطاب آوے ہے
دل انہی راستوں سے گزرے گا
جن پر نسدن٭ عذاب آوے ہے
اس کے ہوتے بهی دل دکها ہے بہت
اس سے کہتے حجاب آوے ہے

ادا جعفری

نِسدِن٭ بمعنی رات دن، شب و روز، ہر وقت، ہر دن، روزانہ

No comments:

Post a Comment