ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں
ہم اپنے پیار میں اک بانکپن محسوس کرتے ہیں
جھُلستا ہے نظر کو جب ملائم سا کوئی شعلہ
ہم اپنے دل میں ٹھنڈی سی جلن محسوس کرتے ہیں
تِرا پیکر تو خیر اک مشعلِ تاباں تھا پہلے بھی
ضمیرِِ شوق میں ان رفعتوں کا ہے مقام اے دل
جنہیں ہم یا کبھی دار و رسن محسوس کرتے ہیں
بنے ہیں خار بے صرف، پڑے ہیں سایۂ گُل میں
ہم اس گُلشن میں آپ اپنی چُھبن محسوس کرتے ہیں
کچھ اس ڈر سے بھی رُودادِ بہاراں ہم نہیں کہتے
کہ ان باتوں کو اربابِ چمن محسوس کرتے ہیں
مِلی ہے وہ اذیت بھی قتیلؔ اس کی جُدائی میں
دمِ آخر جسے رُوح و بدن محسوس کرتے ہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment