Monday 18 April 2016

ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں

ہزاروں میں بس اک تیری لگن محسوس کرتے ہیں
ہم اپنے پیار میں اک بانکپن محسوس کرتے ہیں
جھُلستا ہے نظر کو جب ملائم سا کوئی شعلہ
ہم اپنے دل میں ٹھنڈی سی جلن محسوس کرتے ہیں
تِرا پیکر تو خیر اک مشعلِ تاباں تھا پہلے بھی
تِرے سائے کو بھی ہم ضو فگن محسوس کرتے ہیں
ضمیرِِ شوق میں ان رفعتوں کا ہے مقام اے دل
جنہیں ہم یا کبھی دار و رسن محسوس کرتے ہیں
بنے ہیں خار بے صرف، پڑے ہیں سایۂ گُل میں
ہم اس گُلشن میں آپ اپنی چُھبن محسوس کرتے ہیں
کچھ اس ڈر سے بھی رُودادِ بہاراں ہم نہیں کہتے
کہ ان باتوں کو اربابِ چمن محسوس کرتے ہیں
مِلی ہے وہ اذیت بھی قتیلؔ اس کی جُدائی میں
دمِ آخر جسے رُوح و بدن محسوس کرتے ہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment