Monday 18 April 2016

دل والوں کی بات چلی ہے افسانہ در افسانہ

دل والوں کی بات چلی ہے، افسانا در افسانا
میرے ساتھ کے جاگنے والو، تم نہ کہیں اب سو جانا
پیار تو کرتی ہے سب دنیا بات فقط ایثار کی ہے
محفل کو اس سے کیا مطلب شمع جلے یا پروانا 
میری خوشیاں بھی اندیکھی میرے غم بھی اَندیکھے
جنگل کے پھولوں کا یارو کیا کھِلنا، کیا مرجھانا
میں نہیں تیری بزم کے لائق تُو شاید سچ کہتا ہے
اچھا بھائی! ُخوش ہو لے، میں پاگل، میں دیوانا
کون برا ہے کون بھلا ہے میں یہ فتوٰی کیسے دوں
شیخ سے بھی یاد اللہ میری، رِندوں سے بھی یارانا
پھولوں کی مانند کھِلے تھے ماضی میں دو پیار مِرے
آج تلک منسوب ہے مجھ سے اک بانو، اک سلطانا
کیوں غیروں سے پوچھ رہے ہو پتہ قتیلؔ شفائی کا
ایسا بھی گمنام نہیں ہے وہ شاعر، وہ دیوانا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment