دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
میری جبِیں پہ اپنا مقدر سجائیے
میں چاندنی میں گوندھ کے لایا ہوں رات کو
اب آپ اس سے کوئی سویرا بنائیے
آئے تھے جس کی دید کو جھونکے بہار کے
سب نے کئے ہیں مجھ پہ جفاؤں کے تجربے
اِک بار آپ بھی تو مجھے آزمائیے
میں شہر بھر میں ایک ہی اِیذا پسند ہوں
گر چاہیے دُعا تو مِرا دل دُکھائیے
شاید چھُپا ہو اس میں کہیں نام آپ کا
دُنیا سے چھُپ کے میری غزل گُنگُنائیے
بیٹھا ہوں میں ابھی تو غموں کے ہجوم میں
آنا ضرور ہے تو اکیلے میں آئیے
اس رُوپ میں تو آپ کو پہچانتا ہوں میں
چہرے پہ اب نیا کوئی چہرہ سجائیے
ذِلت پہ دُشمنی میں اُتر جاۓ جو قتیلؔ
اس بد قماش کو نہ کبھی منہ لگائیے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment