Monday 18 April 2016

دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے

دنیا کو یہ کمال بھی کر کے دکھائیے
میری جبِیں پہ اپنا مقدر سجائیے
میں چاندنی میں گوندھ کے لایا ہوں رات کو
اب آپ اس سے کوئی سویرا بنائیے 
آئے تھے جس کی دید کو جھونکے بہار کے
میرے بدن میں پھر وہی خوشبو رچائیے
سب نے کئے ہیں مجھ پہ جفاؤں کے تجربے
اِک بار آپ بھی تو مجھے آزمائیے
میں شہر بھر میں ایک ہی اِیذا پسند ہوں
گر چاہیے دُعا تو مِرا دل دُکھائیے
شاید چھُپا ہو اس میں کہیں نام آپ کا
دُنیا سے چھُپ کے میری غزل گُنگُنائیے
بیٹھا ہوں میں ابھی تو غموں کے ہجوم میں
آنا ضرور ہے تو اکیلے میں آئیے
اس رُوپ میں تو آپ کو پہچانتا ہوں میں
چہرے پہ اب نیا کوئی چہرہ سجائیے
ذِلت پہ دُشمنی میں اُتر جاۓ جو قتیلؔ
اس بد قماش کو نہ کبھی منہ لگائیے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment