Friday, 15 April 2016

زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے

زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
کہیں نہ گھر سے گئے کارواں کے ہوتے ہوئے
میں کس کا نام نہ لوں اور نام لوں کس کا
ہزاروں پھول کھلے تھے خزاں کے ہوتے ہوئے
بدن کہ جیسے ہواؤں کی زد میں کوئی چراغ
یہ اپنا حال تھا اک مہرباں کے ہوتے ہوئے
ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا، پھر بھی
یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے
وہ بے نیاز ہیں ہم مستقل کہیں نہ رکے
کسی کے نقشِ قدم آستاں کے ہوتے ہوئے
ہر ایک رختِ سفر کو اٹھائے پھِرتا تھا
کوئی مکیں نہ کہیں تھا مکاں کے ہوتے ہوئے
یہ سانحہ بھی مِرے آنسوؤں پہ گزرا ہے
نگاہ بولتی تھی ترجماں کے ہوتے ہوئے
ہدایتوں کا ہے محتاج نامہ بر کی طرح
فقیہِ شہر طلسمِ بیاں کے ہوتے ہوئے
عجیب نور سے رشتہ تھا نور کا اخترؔ
کئی چراغ جلے کہکشاں کے ہوتے ہوئے

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment