گھن گھور اندھیروں میں ستارا چمکے
جیسے طوفاں میں کنارا چمکے
وہی بحران ہے اب بھی لیکن
تیری آنکھوں میں اشارا چمکے
وقت بن جاتا ہے مرہم خود ہی
ایک امید ہے زندہ اب بھی
راکھ میں جیسے شرارا چمکے
اس کو دیکھوں تو میں سوچوں اکبرؔ
جس کی قسمت کا ستارا چمکے
اکبر حمیدی
No comments:
Post a Comment