Friday 15 April 2016

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے
آدھا کام تو کر رکھا ہے
اس نے کہا تھا مت گھبرانا
ہر دیوار میں در رکھا ہے
کچھ تو اس کے معنی ہونگے
ہر شانے پر سر رکھا ہے
سب جھلکے پر نظر نہ آئے
ایسا پردہ کر رکھا ہے
میری خاک کے اندر اکبرؔ
لطفِ خیر و شر رکھا ہے

اکبر حمیدی

No comments:

Post a Comment