Monday, 18 April 2016

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
اس نزاکت پر یہ شمشیرِ جفا 
آپ سے کیونکر سنبھالی جائے گی
کیا غمِ دنیا کا ڈر مجھ رِند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی
شیخ کی دعوت میں مے کا کیا کام
احتیاطً کچھ منگا لی جائے گی
یادِ ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں 
کب تِری یہ کج خیالی جائے گی

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment