جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدیئے
یہ جنس ہے گِراں مگر ارزاں خریدیئے
نظروں کے سامنے ہیں شب غم کے مرحلے
کچھ خون ہے تو صبح درخشاں خریدیئے
یوں بھی نہ کھل سکا نہ کوئی زندگی کا راز
مرنا ہے تو نظر رکھیں اپنے مآل پر
جینا ہے تو حیات کا ساماں خریدیئے
جو کہہ سکیں تو کیجئے یہ کاروبار زیست
جو کہہ رہا ہے یہ دلِ ناداں خریدیئے
جو روح کو حیات دے، دل کو سکون دے
یہ بھِیڑ دے کے ایک وہ انساں خریدیئے
زخموں کی تاب ہے نہ تبسم کا حوصلہ
ہم کیا کریں گے آپ گلستاں خریدیئے
کرنا پڑے ہے جس کے لئے غیر کا طواف
وہ غم نہ لیجئے،۔ نہ وہ ارماں خریدیئے
باقیؔ اسی میں حضرتِ انساں کی خیر ہے
سارا جہان دے کے اِک اِیماں خریدیئے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment