افتادِ طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
شِدت کی محبت میں شِدت ہی کے غم پہنچے
احوال بتائیں کیا، رستے کی سنائیں کیا
با حالت زار آئے،۔ با دیدۂ نم پہنچے
جس چہرے کو دیکھا وہ آئینۂ دوری تھا
کچھ لب پہ کچھ آنکھوں میں لے آئے سجا کر ہم
جو رنج کہ ہاتھ آئے، جو غم کہ بہم پہنچے
قطع سرِ شاخ نرم آغازِ نموئے نو
صدمے مِری چاہت کو پہنچے تو پہ کم پہنچے
وہ شاخ بنے سنورے، وہ شاخ پھلے پھولے
جس شاخ پہ دھوپ آئے، جس شاخ کو نم پہنچے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment