کیا کیا سفر کی گردشیں ہم دیکھتے رہے
مڑ مڑ کے اپنے نقشِ قدم دیکھتے رہے
وہ یادِ عہدِ رفتہ تھی یا کوئی خواب تھا
اک پھول سا کھِلا ہوا غم دیکھتے رہے
دریا میں عکسِ ابرِ رواں کی مثال ہم
آنکھوں میں اعتبار کی کرچوں کے زخم ہیں
ٹوٹے ہیں کیسے کیسے بھرم دیکھتے رہے
کن حسرتوں سے دشتِ مسافت کے غمزدہ
شاخوں میں پھول، پھولوں میں نم دیکھتے رہے
ممکن نہیں رسائی ضیاؔ اگر یونہی
سمتوں کے پیچ، راہوں کے دیکھتے رہے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment