وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے
جو مِرا غم تھا وہی اب مِرے ہمراز کا ہے
راکھ کر دے گا جلا کر مجھے شعلے کی طرح
دل میں کھِلتا ہوا یہ پھول کس انداز کا ہے
جس کے اظہار سے ہوں سینوں میں خورشید طلوع
ہاتھ اندھیروں میں ابھرتے ہیں چراغوں کی طرح
وقت یہ بے بسئ طنطنہ و ناز کا ہے
مجھ سے ذرّے کو مِلے نیّرِ تاباں کی ضیاؔ
یہ تلطّف بھی اسی صاحبِ اعجاز کا ہے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment