Thursday 14 April 2016

وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے

وہ سمجھتا ہے جو انجام تگ و تاز کا ہے
جو مِرا غم تھا وہی اب مِرے ہمراز کا ہے
راکھ کر دے گا جلا کر مجھے شعلے کی طرح
دل میں کھِلتا ہوا یہ پھول کس انداز کا ہے
جس کے اظہار سے ہوں سینوں میں خورشید طلوع
منتظر رات کا سناٹا اس آواز کا ہے
ہاتھ اندھیروں میں ابھرتے ہیں چراغوں کی طرح
وقت یہ بے بسئ طنطنہ و ناز کا ہے
مجھ سے ذرّے کو مِلے نیّرِ تاباں کی ضیاؔ
یہ تلطّف بھی اسی صاحبِ اعجاز کا ہے

ضیا جالندھری

No comments:

Post a Comment