کہاں کا صبر سو سو بار دیوانوں کے دل ٹوٹے
شکستِ دل کے خدشے ہی سے نادانوں کے دل ٹوٹے
گرے ہیں ٹوٹ کر کچھ آئینے شاخوں کی پلکوں سے
یہ کس کی آہ تھی، کیوں شبنمستانوں کے دل ٹوٹے
اس آرائش سے تو کچھ اور ابھری ان کی ویرانی
وہ محرومی کا جوشِ خواب پرور اب کہاں باقی
بر آئیں اتنی امیدیں کہ ارمانوں کے دل ٹوٹے
انہیں اپنے گدازِ دل سے اندازہ تھا اوروں کا
جب انسانوں کے دل دیکھے تو انسانوں کے دل ٹوٹے
قفس سے حسنِ گل کے قدرداں اب تک نہیں پلٹے
شگوفوں کے تبسم سے گلستانوں کے دل ٹوٹے
ضیاؔ اپنی تباہی پر انہیں بھی ناز تھے کیا کیا
ہمیں دیکھا تو صحراؤں، بیابانوں کے دل ٹوٹے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment