بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے
آئے ہوں جیسے ان کے لیے دن بہار کے
اے تیز رو زمانے! تجھے کچھ خبر بھی ہے
لمحے صدی بنے ہیں شبِ انتظار کے
باقی رہے نہ گلشن و گل اور نہ آشیاں
اے رہروانِ گورِ غریباں! خموش ہو
سوئے ہیں سونے والے شبِ غم گزار کے
اے سالکانِ اہلِ جنوں! اور تیز گام
اٹھ اٹھ کے دیکھتے ہیں بگولے غبار کے
میرے خدا! شکستہ سفینے کی خیر ہو
ہر موج دیکھتی ہے مجھے سر ابھار کے
ساغر خیامی
No comments:
Post a Comment