Tuesday, 19 April 2016

بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے

بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے
آئے ہوں جیسے ان کے لیے دن بہار کے
اے تیز رو زمانے! تجھے کچھ خبر بھی ہے
لمحے صدی بنے ہیں شبِ انتظار کے
باقی رہے نہ گلشن و گل اور نہ آشیاں
لیکن ہیں چار سُو وہی چرچے بہار کے
اے رہروانِ گورِ غریباں! خموش ہو
سوئے ہیں سونے والے شبِ غم گزار کے
اے سالکانِ اہلِ جنوں! اور تیز گام
اٹھ اٹھ کے دیکھتے ہیں بگولے غبار کے
میرے خدا! شکستہ سفینے کی خیر ہو
ہر موج دیکھتی ہے مجھے سر ابھار کے

ساغر خیامی

No comments:

Post a Comment