Tuesday 19 April 2016

روٹی کپڑا اور مکان

روٹی کپڑا اور مکان

دل جل رہے ہیں دوستو غم کے الاؤ میں
بچے بھی مبتلا ہیں دماغی تناؤ میں
پانی کی طرح بہتی ہے دولت چناؤ میں
یکجہتی کا تو نام نہیں رکھ رکھاؤ میں
اک آدمی کے واسطے پتلون، شرٹ، کوٹ
اک آدمی  کے واسطے ممکن نہیں لنگوٹ

اک گھر میں اتنی روٹیاں کھاۓ نہیں بنیں
اک گھر کا ہے یہ حال کہ ستو نہیں سنیں
اک گھر میں اتنی روشنی آنکھیں نہیں کھلیں
اک گھر میں گھاسلیٹ کے دیپک نہیں جلیں
کتے کسی کے سیر کو موٹر پہ جاتے ہیں
قسمت کے ڈر پہ بیٹھ کے کچھ دم ہلاتے ہیں
یہ کون سوچتا ہے، برابر ہے آدمی
دولت ہے جس کے پاس وہ بہتر ہے آدمی
وہ آدمی نہیں جو پھٹیچر ہے آدمی
راہیں طویل اور کھلے سر ہے آدمی
اسیا رہا ہے وہ جو غریبی کی اوس میں
پکوان پاک رہے ہیں اسی کے پڑوس میں
صحنِ چمن  میں کچھ پسِ دیوار ہیں کھڑے
یعنی عوام جان سے بیزار ہیں کھڑے
دفتر میں روزگار کے بیکار ہیں کھڑے
لائن میں ہسپتال کی بیمار ہیں کھڑے
روٹی اگر نہ پائی تو پتھر اٹھائیں گے
بھوکے  کبھی نہ بھوک میں ملہار گائیں گے
عالم یہ دفتروں کا ہے یاران تیز گام
پھیلا ہر اک گام ہے رشوت کا ایک دام
افسر بھی بے نکیل ہیں اسٹاف بے لگام
جنتا کا یہ حال ہے کرتی ہے رام رام
موسم کو دیکھ کے فائل بڑھاۓ ہیں
دفتر میں لڑکیاں بھی تو سویٹر بنائے ہیں
روشن کرو چراغ وہ دورِ سیاہ میں
کھاۓ نہ کوئی ٹھوکریں روٹی کی چاہ میں
غربت اڑی ہوئی ہے ترقی کی راہ میں
یکساں سبھی ہوں لوگ تمہاری نگاہ میں
ترتیب دو چمن کو بڑھی شاخوں کو چھانٹ دو
دولت کو آدمی پہ برابر سے بانٹ دو

ساغر خیامی

No comments:

Post a Comment