نامہ بر آتے رہے جاتے رہے
ہجر میں یوں دل کو بہلاتے رہے
یہ بھی کیا کم ہے کہ میرے حال پر
دیر تک وہ غور فرماتے رہے
شدتِ احساسِ تنہائی نہ پوچھ
ہجر کی تاریکیاں بڑھتی گئیں
مہر و مہ آتے رہے جاتے رہے
کوئی کیا جانے گا یہ راز و نیاز
دل ہمیں، ہم دل کو سمجھاتے رہے
منزلِ مقصود پر پہنچے وہی
راہ میں جو ٹھوکریں کھاتے رہے
نشۂ مَے تیز تر ہوتا گیا
شیخ صاحب وعظ فرماتے رہے
کیا عجب شے ہے متاعِ دل سحرؔ
جو اسے کھوتے رہے پاتے رہے
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment