Tuesday 19 April 2016

نامہ بر آتے رہے جاتے رہے

نامہ بر آتے رہے جاتے رہے
ہجر میں یوں دل کو بہلاتے رہے
یہ بھی کیا کم ہے کہ میرے حال پر
دیر تک وہ غور فرماتے رہے
شدتِ احساسِ تنہائی نہ پوچھ
ہم بھری محفل میں گھبراتے رہے
ہجر کی تاریکیاں بڑھتی گئیں
مہر و مہ آتے رہے جاتے رہے
کوئی کیا جانے گا یہ راز و نیاز
دل ہمیں، ہم دل کو سمجھاتے رہے
منزلِ مقصود پر پہنچے وہی
راہ میں جو ٹھوکریں کھاتے رہے
نشۂ مَے تیز تر ہوتا گیا
شیخ صاحب وعظ فرماتے رہے
کیا عجب شے ہے متاعِ دل سحرؔ
جو اسے کھوتے رہے پاتے رہے

سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)

No comments:

Post a Comment