رخ تہِ زلفِ سیاہ فام کہاں تک دیکھوں
کفر کو رہزنِ اسلام کہاں تک دیکھوں
شورشِ گردشِ ایام کہاں تک دیکھوں
یہ فسردہ سحر و شام کہاں تک دیکھوں
جذبِ دل رہتا ہے ناکام، کہاں تک دیکھوں
آج تک دیکھ چکا ہوں میں ازل سے لے کر
اور اب عشق کا انجام، کہاں تک دیکھوں
عشق کو ترکِ طلب کا میں سبق دیتا ہوں
حسن کو موردِ الزام کہاں تک دیکھوں
نہ سہی رِندِ بلا نوش، مگر پھر بھی، سحرؔ
اپنے ہاتھوں کو تہی جام کہاں تک دیکھوں
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment