تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اس طرح مل، کہ ملاقات مکمل ہو جائے
دن میں بکھرا ہوں بہت، رات سمیٹے گی مجھے
نیند بن کر مِری آنکھوں سے مِرے خوں میں اتر
رت جگا ختم ہو، اور رات مکمل ہو جائے
ابر آنکھوں سے اٹھے ہیں، تِرا دامن مل جائے
حکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے
تیرے سینے سے مِرے سینے میں آیات اتریں
سورۂ کشف و کرامات مکمل ہو جائے
تیرے لب مہر لگا دیں تو یہ قصہ ہو تمام
دفترِ طولِ شکایات مکمل ہو جائے
تجھ کو پائے تو وحیدؔ اپنے خدا کو پا لے
کاوشِ معرفتِ ذات مکمل ہو جائے
وحید اختر
No comments:
Post a Comment