Saturday 16 April 2016

رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے

رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
جیسے سپنا کوئی اداس اداس
کیسا سنسان ہے سحر کا سماں
پتیاں محوِ یاس، گھاس اداس
خیر ہو شہرِ شبنم و گل کی
کوئی پھِرتا ہے آس پاس اداس
بیٹھے بیٹھے برس پڑیں آنکھیں
کر گئی پھر کسی کی آس اداس
کوئی رہ رہ کے یاد آتا ہے
لیے پھِرتی ہے کوئی باس اداس
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھِرو اداس اداس
صبح ہونے کو ہے اٹھو ناصرؔ
گھر میں بیٹھے ہو کیوں نِراس اداس

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment