رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
جیسے سپنا کوئی اداس اداس
کیسا سنسان ہے سحر کا سماں
پتیاں محوِ یاس، گھاس اداس
خیر ہو شہرِ شبنم و گل کی
بیٹھے بیٹھے برس پڑیں آنکھیں
کر گئی پھر کسی کی آس اداس
کوئی رہ رہ کے یاد آتا ہے
لیے پھِرتی ہے کوئی باس اداس
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھِرو اداس اداس
صبح ہونے کو ہے اٹھو ناصرؔ
گھر میں بیٹھے ہو کیوں نِراس اداس
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment