Saturday 16 April 2016

جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا

جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا
ہاتھ آیا جو یقیں،۔ وہم سراسر نکلا
اک سفر دشت خرابی سرابوں تک ہے
آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
خشک آنکھوں سے اٹھی موج تو دنیا ڈوبی
ہم جسے سمجھے تھے صحرا وہ سمندر نکلا
زیر پا اب نہ زمیں ہے نہ فلک ہے سر پر
سیلِ تخلیق بھی گرداب کا منظر نکلا
گم ہیں جبرئیل و نبی گم ہیں کتاب و ایماں
آسماں خود بھی خلاؤں کا سمندر نکلا
عرش پر آج اترتی ہے زمینوں کی وحی
کرۂ خاک ستاروں سے منور نکلا
ہر پیمبر سے صحیفے کا تقاضا نہ ہوا
حق کا یہ قرض بھی نکلا تو ہمیں پر نکلا
گونج اٹھا نغمۂ کُن دشتِ تمنا میں وحیدؔ
پائے وحشت حدِ امکاں سے جو باہر نکلا

وحید اختر

No comments:

Post a Comment