Friday, 15 April 2016

تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری

تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
وہ شہر کیا ہُوا جس کی تھی ہر گلی میری
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
یہ سرگزشتِ زمانہ، یہ داستانِ حیات
ادھوری بات میں بھی رہ گئی کمی میری
ہوائے کوہِ ندا اک ذرا ٹھہر کہ ابھی
زمانہ غور سے سنتا ہے ان کہی میری
میں اتنے زور سے چیخا چٹخ گیا ہے بدن
پھر اس کے بعد کسی نے نہیں سنی میری
کسے خبر کہ گہر کیسے ہاتھ آتے ہیں
سمندروں سے بھی گہری ہے خامشی میری
کوئی تو آئے مِرے پاس دو گھڑی بیٹھے
کہ کر گئی مجھے تنہا خود آگہی میری
کبھی کبھی تو زمانہ رہا نگاہوں میں
کبھی کبھی نظر آئی نہ شکل بھی میری
مجھے خبر ہے کہاں ہوں میں کون ہوں اخترؔ
کہ میرے نام سے صورت گَری ہوئی میری

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment