رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
دن کے ساحل پہ جو اترے تو اندھیرا دیکھا
خود کو لکھا بھی ہے میں نے مٹایا بھی ہے خود
قلمِ غیر نے سایہ بھی نہ میرا دیکھا
جن کے چہروں پہ چمک، نور کا ہالا اطراف
جن کے تیشوں کو رہا کوہ کنی کا دعویٰ
انہیں محلوں کا بھی کرتے ہوئے پھیرا دیکھا
جو مجھے دینے کو آتے تھے غم اپنے اکثر
ان کی خوشیوں نے کبھی گھر بھی نہ میرا دیکھا
عمر کل گزری تھی پڑھتے ہوئے چہرہ تیرا
آج ڈھونڈا تو کہیں عکس نہ تیرا دیکھا
جو مجھ برگِ خزاں سمجھی تھیں ان آنکھوں نے
نام اوراقِ بہاراں پہ بھی میرا دیکھا
وحید اختر
No comments:
Post a Comment