Saturday 16 April 2016

رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا

رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
دن کے ساحل پہ جو اترے تو اندھیرا دیکھا
خود کو لکھا بھی ہے میں نے مٹایا بھی ہے خود
قلمِ غیر نے سایہ بھی نہ میرا دیکھا
جن کے چہروں پہ چمک، نور کا ہالا اطراف
ان کے ذہنوں کو جو کھولا تو اندھیرا دیکھا
جن کے تیشوں کو رہا کوہ کنی کا دعویٰ
انہیں محلوں کا بھی کرتے ہوئے پھیرا دیکھا
جو مجھے دینے کو آتے تھے غم اپنے اکثر
ان کی خوشیوں نے کبھی گھر بھی نہ میرا دیکھا
عمر کل گزری تھی پڑھتے ہوئے چہرہ تیرا
آج ڈھونڈا تو کہیں عکس نہ تیرا دیکھا
جو مجھ برگِ خزاں سمجھی تھیں ان آنکھوں نے
نام اوراقِ بہاراں پہ بھی میرا دیکھا

وحید اختر

No comments:

Post a Comment