Wednesday, 13 April 2016

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں مِرا خون جل گیا
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment