Wednesday 13 April 2016

اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محو فغاں کیوں ہو

اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محوِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو آتش درختوں میں تو جنگل میں دھواں کیوں ہو
یہ میرا درد اپنا ہے، کسی پر بھی عیاں کیوں ہو
کسی کی آنکھ سے میرا کوئی آنسو رواں کیوں ہو
جدائی آپ مانگی ہے تو پھر یادیں بھی کیوں اسکی
اگر اتنے جفا کش ہو تو زیرِ سائباں کیوں ہو
جب اپنا اپنا رستہ ہے، جب اپنی اپنی منزل ہے
تو کیوں مجھ پر سوال اتنے، یہاں کیوں ہو وہاں کیوں ہو
خوشی کی آبرو ہے تو غموں کی آبرو بھی ہے
جو مٹی میں ہی ملنا ہے تو پھر آنسو رواں کیوں ہو
ہماری بات میں بولے، زمانہ کون ہوتا ہے
تِرا میرا تعلق ہے تو کوئی درمیاں کیوں ہو
تعلق ختم کرنا ہو تو اس کے سو طریقے ہیں
یہ اتنی برہمی کیسی، تم اتنے سرگراں کیوں ہو
کسی کو کیا بتاؤں میں کہ میرے دل پہ کیا گزری
مِرے غم کی کہانی، ساری دنیا پر عیاں کیوں ہو

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment