Tuesday 19 April 2016

یہ چاہتیں یہ پزیرائیاں بھی جھوٹی ہیں

یہ چاہتیں یہ پزیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب
یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں
مِرے جنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی
تِرے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں
کھلی جو آنکھ، تو دیکھا کہ شہرِ فرقت میں
تِری مہک، تِری پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں
تِرے فراق کا اب بھی یقیں نہیں آتا
یہ رتجگے، مِری تنہائیاں بھی جھوٹی ہیں
فریب کار ہیں اِظہار کے وسیلے بھی
خیال و فکر کی گہرائیاں بھی جھوٹی ہیں
اسے یہ دکھ کہ میں رسوا ہوا ہوں اس کیلۓ
مجھے یہ دکھ رہے، رسوائیاں بھی جھوٹی ہیں
تمام لفظ و معانی بھی جھوٹ ہیں ساجدؔ 
ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment