Tuesday 19 April 2016

میرے بس میں نگار زندگی ہے

میرے بس میں نگارِ زندگی ہے
مجھے اب اعتبارِ زندگی ہے
درِ دل پر کسی نے دی ہے دستک
مجھے تو انتظارِ زندگی ہے
پِلا دی تھی نگاہوں سے کسی نے
ہمیں اب تک خمارِ زندگی ہے
سمٹ آئے وہ دل میں آس بن کر
یہ لمحہ یادگارِ زندگی ہے
وہاں تک ہم تمہارا ساتھ دیں گے
جہاں تک رہگزارِ زندگی ہے
لٹا کر قہقہے آنسو خریدیں
بس اتنا کاروبارِ زندگی ہے
ملا ہے جو ہمیں راہِ وفا میں
وہ غم پروردگارِ زندگی ہے
یہاں تو دفن ہیں لاکھوں امیدیں
یہ دل کیا ہے؟ مزار زندگی ہے
تمہی بسمل نہیں صیدِ حوادث
ہر اک انساں شکارِ زندگی ہے

بسمل صابری

No comments:

Post a Comment