Monday, 18 April 2016

روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے

روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے
روز کچھ بارِ سفر بڑھ جائے ہے
کوئی تا حد تصور بھی نہیں
کون یہ زنجیرِ در کھڑکائے ہے 
تیرے افسانے میں ہم شامل نہیں
بات بس اتنی سمجھ میں آئے ہے
وسعتِ دل، تنگئ جاں بن گئی
زخم اک تا زیست پھیلا جائے ہے
جھوم جھوم اٹھی صبا کے دھیان میں
کتنی مشکل سے کلی مرجھائے ہے
زندگی ہر رنگ میں ہے اک فریب
آدمی ہر حال میں پچھتائے ہے
گاہ صحرا سے ملے پانی کی موج
گاہ دریا بھی ہمیں ترسائے ہے
میری صورت تو کبھی ایسی نہ تھی
آئینہ کیوں دیکھ کر شرمائے ہے
باقیؔ اس احساس کا کوئی علاج؟
دل وہیں خوش ہے جہاں گھبرائے ہے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment