ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے
دل میں جب کوئی بات ہوتی ہے
شمع بُجھتی ہے، زُلف کھُلتی ہے
تب کہیں رات، رات ہوتی ہے
حُسن سرشار، عشق وارفتہ
زیست لے بیٹھتی ہے اپنے گِلے
غم سے جب کچھ نجات ہوتی ہے
بے رُخی، اختلاف، رُوکھا پن
یوں بھی کیا کوئی بات ہوتی ہے
زخم کھا کر نظر جب اٹھتی ہے
حاصلِ کائنات ہوتی ہے
غم کا احساس تک نہیں باقیؔ
یوں بھی غم سے نجات ہوتی ہے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment