Monday, 18 April 2016

ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے

ہر نظر ایک گھات ہوتی ہے
دل میں جب کوئی بات ہوتی ہے
شمع بُجھتی ہے، زُلف کھُلتی ہے
تب کہیں رات، رات ہوتی ہے
حُسن سرشار، عشق وارفتہ
کس سے ایسے میں بات ہوتی ہے
زیست لے بیٹھتی ہے اپنے گِلے
غم سے جب کچھ نجات ہوتی ہے
بے رُخی، اختلاف، رُوکھا پن
یوں بھی کیا کوئی بات ہوتی ہے
زخم کھا کر نظر جب اٹھتی ہے
حاصلِ کائنات ہوتی ہے
غم کا احساس تک نہیں باقیؔ
یوں بھی غم سے نجات ہوتی ہے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment